محل تبلیغات شما



اَللّٰھُمَّ قَرِّبْنِی فِیہِ إلی مَرْضاتِكَ وَجَنِّبْنِی فِیہِ مِنْ سَخَطِكَ وَنَقِماتِكَ وَوَفِّقْنِی فِیہِ لِقِرائَۃِ آیاتِكَ، بِرَحْمَتِكَ يَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔

اے معبود! آج کے دن مجھے اپنی رضاؤں کے قریب کر دے اور مجھے اپنی ناراضگی اور عذاب سے بچائے رکھ اور آج کے دن مجھے اپنی آیات پڑھنے کی توفیق عطا فرمااپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔


اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ صِیامِی فِیہِ صِیامَ الصَّائِمِینَ وَقِیامِی فِیہِ قِیامَ الْقائِمِینَ وَنَبِّھْنِی فِیہِ عَنْ نَوْمَةِ الْغافِلِینَ، وَھَبْ لِی جُرْمِی فِیہِ یَا إِلہَ الْعالَمِینَ، وَاعْفُ عَنِّی یَا عافِیاً عَنِ الْمُجْرِمِینَ .

اے معبود! میرا آج کا روزہ حقیقی روزے داروں جیسا قرار دے میری عبادت چے عبادت گزاروں جیسی قرار دے آج مجھے غافل لوگوں جیسی نیند سے بیدار کردے اور میرے گناہ بخش دے اے عالمین کے معبود اور مجھ کو معاف کردے اے گناہکاروں کو معاف کرنے والے۔

التماس دعا


 

فخر اسماعیل کے بابرکت ہاتھوں سےپوٹھنے والا متبرک چشمہ(زمزم رضوی)

مشہد مقدس سے پرانے نیشاپور روڈ پر دہ سرخ( سرخ دیہات) نامی دیہات واقع ہے ۔ اس دیہات کا پرانا نام قریۃ الحمراء تھا اور اس دیہات کا نام سرخ دیہات ہونے کی وجہ یہاں کی سرخ زمین اور سرخ پہاڑ ہیں  ،یہ دیہات دو ہزار سالہ قدیمی تاریخ رکھتا ہے ۔

جب حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام مدینہ سے طوس تشریف لارہے تھے تو ایک روایت کے مطابق جو امام علیہ السلام کے صحابی ابا صلتؒ سے نقل ہوئی ہے  کہ آپ جب دہ سرخ نامی دیہات میں پہنچے تو آپ کے اصحاب نے عرض کی: یابن رسول اللہ نماز ظہر کا وقت ہو چکا ہے، آپ (ع) اپنی سواری سے نیچے تشریف لائے اور وضو کے لئے پانی طلب کیا تو اس وقت امام علیہ السلام کو بتایا گیا کہ پانی ختم ہو چکا ہے تو آپ(ع) نے اپنے ہاتھ مبارک سے زمین کو تھوڑا  سا کھودا  تو زمین سے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا جس سے آپ(ع) نے اور آپ کے ہمراہ باقی افراد نے وضو کیا، دیہات میں رہنے والے افراد کے درمیان مشہور ہے کہ یہ چشمہ اس وقت سے اب تک ایک لحظہ کے لئے بھی خشک نہیں ہوا اور وہاں کے رہنے والے اس چشمہ کو ’’زمزم رضوی‘‘ کہتے ہیں۔

زیارت کے لئے آنے والے مومنین  اپنے مریضوں کی شفایابی کے لئے اس چشمہ سے متبرک پانی کو لے جاتے ہیں۔ اب تک بہت سارے مؤمنین اسی چشمہ کے پانی سے شفا پا چکے ہیں۔

علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہ چشمہ بہت ہی بابرکت ہے کیونکہ ولایت و امامت کے آٹھویں تاجدار نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس چشمہ کو جاری کیا اور اس جگہ پر نماز ادا کی۔

جس جگہ پر والی خراسان حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے نماز پڑھی  وہ جگہ اسی چشمہ کے قریب ہے اور زمین سے ایک میٹر بلند ہے وہاں کے رہنے والے افراد اس جگہ کو کسی معجزہ سے کم نہیں جانتے۔۔

چشمہ سے تین سو میٹر کے فاصلے پرسید الساجدین امام العابدین حضرت زین العابدین علیہ السلام کے پوتوں میں سے ایک امامزادہ حضرت سید عبد العزیز کی مزار شریف بھی ہے ۔

ہر سال اسلامی جمہوریہ ایران کے مختلف شہروں سے زائرین کی کثیر تعداد اس متبرک مقام کی زیارت کے لئے تشریف لاتی ہے ۔۔


 بشار مکاری کہتے ہیں کہ میں کوفہ میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کھجوریں تناول فرما رہے تھے، آپ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’ بشار قریب آجاؤ اور کھجوریں کھاؤ۔‘‘
          میں نے عرض کی: ’’ مولا میں آرہاتھا کہ راستہ میں ایک عجیب منظر دیکھا جس کی وجہ سے میرا جی اس وقت بھی رونے کو چاہ رہا ہے، اسی لئے میں کھجوریں نہیں کھاؤں گا ، آپ تناول فرمائیں۔‘‘
          آپ نے فرمایا: ’’ بشار میرے اس حق کا واسطہ جو تمہارے ذمہ ہے، میرے قریب آؤ اور کھجوریں کھاؤ‘‘چنانچہ میں نے امام علیہ السلام کے ساتھ کھجوریں کھانا شروع کیں، امام عالی مقام نے مجھ سے پوچھا کہ :’’ تم نے کیا دیکھا ہے‘‘؟ میں نے عرض کی: ’’ مولا میں نے حکومت کے چند سپاہیوں کو دیکھا جو ایک عورت کو تازیانوں سے پیٹ رہے تھے اور عورت لوگوں کو خدا و رسول کا واسطہ دے کر مدد کے لئے پکار رہی تھی مگر کسی نے اس کی مدد نہیں کی‘‘۔
          امام علیہ السلام نے پوچھا:’’ یہ بتاؤ کہ سپاہی اس عورت کو کیوں مار رہے تھے‘‘؟ میں نے کہا: ’’ مولا میں نے سنا ہے کہ وہ عورت سڑک پر جارہی تھی اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ زمین پر جاگری اور اس کے منہ سے یہ الفاظ جاری ہوئے: ’’  لَعَنَ اللَّهُ ظَالِمِيكِ يَا فَاطِمَة ‘‘ فاطمہ زہرا ! اللہ ان پر لعنت کرے جنہوں نے آپ پر ظلم کئے تھے‘‘۔ اسی لئے اس عورت کو سپاہیوں نے پکڑ کر تازیانے مارنے شروع کئے اور اسے گرفتار کر کے لے گئے۔
          یہ سن کر امام جعفر صادق علیہ السلام اتنا روئے کہ آپ کی ریش مبارک اور رومال آنسوؤ سے تر ہوگئے اور آپ کے آنسو بہتے ہوئے سینہ مبارک پر جاری ہوگئے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:’’ بشار آؤ مسجد سہلہ چل کر اس خاتون کی رہائی کے لئے دعا مانگیں۔‘‘ اور آپ نے اس خاتون کی خیریت معلوم کرنے کے لئے اپنے ایک صحابی کو دار الامارہ روانہ کیا ۔ہم مسجد سہلہ آئے اور دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر امام صادق علیہ السلام نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ بلند کئے پھر سجدہ کیا، پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھا یا اور فرمایا : ’’ آؤ چلیں وہ مؤمنہ خاتون آزاد ہوچکی ہے‘‘۔
          ہم مسجد سہلہ سے واپس آرہے تھے کہ راستہ میں امام عالی مقام کا وہ صحابی ہمیں ملا جسے آپ نے اس خاتون کی خبر معلوم کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ امام علیہ السلام نے مؤمنہ خاتون سے کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ اسے کس طرح سے رہائی ملی؟ صحابی نے عرض کی:’’ مولا میں وہاں موجود تھا جب اس خاتون کو دربار میں پیش کیا گیا تو اس بی بی سے حاکم نے پوچھا تم نے کیا کہا تھا؟ اس خاتون نے جواب دیا کہ میں راہ چلتے گر پڑی تھی اور میں نے یہ الفاظ کہے تھے: ’’ لَعَنَ اللَّهُ ظَالِمِيكِ يَا فَاطِمَة‘‘ اسکے علاوہ میرا کوئی جرم نہیں ہے، تمہارے سپاہی مجھے تازیانے مارتے ہوئے یہاں لے آئے ہیں‘‘۔
          حاکم نے کہا: ’’ میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں، سپاہیوں نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہے اس کے لئے معافی چاہتا ہوں‘‘۔پھر حاکم نے دو سو درہم اس خاتون کو پیش کئے لیکن خاتون نے رقم لینے سے انکار کردیا، پھر اس خاتون کو آزاد کردیا گیا۔
          امام علیہ السلام نے فرمایا: ’’ تو کیا اس نے دو سو درہم لینے سے انکار کردیا؟‘‘ صحابی نے عرض کی: ’’جی ہاں، جبکہ وہ سخت غربت و افلاس کا شکار نظر آتی تھی‘‘۔
آپ نے اپنی جیب سے سات دینار نکالے اور فرمایا: ’’ اس خاتون کے پاس جاؤ اسے میری طرف سے سلام پہنچاؤ اور یہ سات دینار بھی میری طرف سے اسے پہنچاؤ‘‘۔ بشار کہتا ہے کہ ہم اس خاتون کے گھر گئے اور اسے امام جعفر صادق علیہ السلام کا سلام پہنچایا، خاتون نے  ہم سے پوچھا کہ : ’’ کیا واقعی امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے سلام بھیجا ہے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’جی ہاں، امام نے آپ کو سلام بھیجا ہے‘‘۔
          یہ خوش خبری سن کر مؤمنہ فرط مسرت سے بے ہوش ہوگئی، ہم اسکے ہوش میں آنے تک وہاں ٹھرے رہے، جب مؤمنہ کو ہوش آیا تو ہم نے سات دینار اس کے حوالے کئے ۔ مؤمنہ نے کہا: ’’ سَلُوهُ‏ أَنْ‏ يَسْتَوْهِب‏ ‘‘ میری طرف سے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرنا کہ اس کنیز کے گناہوں کو اللہ سے معاف کرادیں‘‘۔ پھر ہم امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم نے مؤمنہ خاتون کی فرمائش امام کی خدمت میں پیش کی، امام علیہ السلام نے رو رو کر اس کے لئے دعا مانگی۔1


حوالہ جات
1. بحار الانوار ج47، ص379 تا  381،،محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان‏، 1404 قمرى‏۔
المزار،ص254 تا  258 ، شهيد اول، محمد بن مكى‏، محقق / مصحح: مدرسه امام مهدى عليه السلام / موحد ابطحى اصفهانى، محمد باقر،  انتشارات: مدرسه امام مهدى عليه السلام‏، قم‏، 1410 ق‏، چاپ اول‏۔


كَتَبَ الرضا عليه السلام: ابْلِغْ شيعَتى : إنَّزِيارَتى تَعْدِلُ عِنْدَاللّهِ عَزَّ وَ جَلَّ اءلْفَ حَجَّةٍ، فَقُلْتُ لاِ بى جَعْفَرٍ عليه السلام : اءلْفُ حَجَّةٍ؟! قالَ: إ ى وَاللّهُ، وَ اءلْفُاءلْفِ حَجَّةٍ، لِمَنْ زارَهُ عارِفا بِحَقِّهِ۔ 
امام رضا علیہ السلام نے اپنے دوست کو خط میں مرقوم قرمایا: ہمارے دوستوں اور عقیدتمندوں سے کہو: میری قبر کی زیارت ایک ہزار بار [مستحب] حج کے برابر ہے۔

 مستدرك الوسائل : ج 10، ص 359، ح 2.


•  عن سعد عن الرضا علیہ السلام قال : یا سعد من زارہا فلہ الجنۃ ۔
•  ثواب الاٴعمال و عیون اخبار الرضا علیہ السلام : عن سعد بن سعد قال : ساٴلت ابا الحسن الرضا علیہ السلام عن فاطمۃ بنت موسی بن جعفر علیہ السلام فقال : من زارہا فلہ الجنۃ 
سعد امام رضا (ع) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اے سعد جس نے حضرت معصومہ (س) کی زیارت کی اس پر جنت واجب ہے ۔
” ثواب الاعمال اور ” عیون الرضا میں سعد بن سعد سے نقل ہے کہ میں نے امام رضا (ع) سے معصومہ (س) کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا حضرت معصومہ (س) کی زیارت کا صلہ بہشت ہے ۔

(کامل ایارات،ص/۳۲۴)


مدح فاطمۃ المعصومہ سلام اللہ علیھا

یوں مری فکر کا عنوان ہے معصومہ قم
خواھر شاہ خراسان ہے معصومہ قم
دین اسلام کی پہچان ہے معصومہ قم
تیرے روضہ کی عجب شان ہے معصومہ قم

تیری مدحت کا میں مفھوم کہاں سے لاؤں
میں بھلا لہجہ معصوم کہاں سے لاؤں

کاش معصومہ قم آپ کی مدحت ہو جائے
اپنی گردن سے ادا اجر رسالت ہو جائے 
نام لوں آپ کا قرآں کی تلاوت ہو جائے 
پہنچوں روضہ پہ تو زہرا(س) کی زیارت ہو جائے

یوں ہے معصومہ قم آپ کا رتبہ لکھنا
جیسے ممکن نہیں زہرا(س) کا قصیدہ لکھنا

عظمت حضرت معصومہ قم کیا لکھوں
اذن دیں مولا رضا(ع) تب کوئی جملہ لکھوں
مدح معصومہ کو قرآں کا خلاصہ لکھوں
روضہ حضرت معصومہ کو کعبہ لکھوں

دین تکمیل جہاں ہو اسے خم کہتے ہیں
وارث دین کو معصومہ قم کہتے ہیں

یوں سجا رہتا ہے معصومہ قم کا دربار
جیسے بخشش کے لئے لوگ لگائے ہوں قطار
قابل دید ہے یہاں علم و عمل کا معیار
یہ وہ در ہے جہاں ملتا ہے نبیوں کو قرار

ان کی دہلیز سے ہر درد کو درماں مل جائے 
یہ اگر کر دیں عطا تخت سلیماں(ع) مل جائے

فیروز رنوی(جون پوری)


قصیدہ در مدح امام رضا (ع)


ملے رہبری جو کتاب خدا کی
کہوں منقبت میں امام رضا کی

زباں پر میری کسکا نام آگیا ہے
کی تاثیر بڑھنے لگی ہے دعا کی

جو یہ چاہتے ہیں وہ رب چاہتا ہے
جوہےانکی مرضی وہ مرضی خداکی

وہی جاہ وحشمت وہی بے نیازی
جھلک تجھ میں دیکھی گئیں مرتضا کی

تیرے جد نےکل حر کو بخشا تھا آقا
کرم ہو کہ تصویر ہوں میں خطا کی

ابھی بھی تیرےدرسے بنٹتا ہے لنگر
ابھی نہر جاری ہے تیری عطا کی

کہاں تیری مدحت کہ میں بے بصیرت
تو پیکر ہے نوری میں پتلا ہوں خاکی

میں جب تیری ضامن میں دیتاہوں خودکو
بدل جاتی ہے شکل و صورت بلا کی

مجھے شاہ کہ کر پکارے گی دنیا
جو دے مجھکو اجرت تو اپنی ثنا کی

یہ وہ ہیں کہ مداح جن کا خدا ہے
جو کی تونے مدحت تو امید کیاکی

کلام علی عباس امید صاحب


دوستی ، محبت اور عشق کی اہم علامات میں سے ایک علامت اپنے محبوب و معشوق کے دیدار کا شوق یا وہی’’ زیارت‘‘ہےاور چونکہ زیارت کمال کی طلب میں ایک فطری امر ہے ، پس جس قدر محبت بڑھتی جاتی ہے زیارت کا شوق بھی بڑھتا جاتا ہے اور جس طرح یہ اشتیاق محبوب کی زندگی کے زمانے میں موجود ہوتا ہے ، دنیا سے محبوب کے پردہ پوش ہو جانے کے بعد بھی باقی رہتا ہے اور ختم نہیں ہوتا خصوصاً ایسی صورتحال میں کہ جب محبوب و معشوق، معصوم اور حجت خدا ہستیاں ہوں کہ جو دنیا سے شہادت کے جام نوش کر کے راہی بقا ہوئی ہوں اور خداوند منّان کے ہاں مخلوقات کے سامنے واسطۂ فیض قرار پائیں ۔ خداوند متعال کے ہاں منفرد پسندید ہ دین ’’اسلام‘‘میں ایسے بے مثال ولازوال پیشواؤں کی قبور مطہرہ کی زیارت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور اس کے فضائل و برکات انتہائی قابل توجہ ہیں ۔ 

زیارت کی معرفت: 
اس حقیقت میں شک نہیں ہے کہ توحید اور یکتا پرستی کی شان بہت ہی عظیم اور منفرد ہے لیکن یہ واقعیت بھی مسلّمہ ہے کہ اس اصل تک پہنچنے کے لئے صحیح راستہ انتخاب کر کے اس پر چلنا ضروری ہے اور وہ سیدھا راستہ ’’صراط مستقیم‘‘ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی عترت طاھرہ علیھم السلام کی محبت و اطاعت کا راستہ ہے ۔ دینی متون اور زیارت نامے ، حقیقت میں معرفت کے خزانے ہیں ، جن پر توجہ کرنے سے چند نکات قابل استفادہ ہیں: 

(1)۔ زائر ہونا ایک ایسا مقام ومرتبہ ہے جس کے لئے توفیق کی ضرورت ہے اور یہ توفیق ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتی ، اس لئے خداوند متعال کی بارگاہ سے عاجزانہ سوال کرنا ضروری ہے تاکہ ایسی توفیقات شامل حال ہوں ۔ 

(2)۔ زیارت ایک قابل محسوس اور مؤثر رابطہ ہے جو طرفین کی جانب سے برقرار اور قائم ہوتا ہے ، اگرچہ ظاہری طور پر دونوں کے درمیان یہ رابطہ دوسرے افراد کے لئے قابل مشاہدہ نہ بھی ہو۔ زیارت نامے میں اس رابطے کی حقیقت تھوڑا سا غوروفکر کرنے سے کھل کر سامنے آجاتی ہے ، جب زیارت کی سعادت حاصل کرنے والا شخص (زائر)اپنی محبوب ومعشوق ہستی کے حضور پیش ہونا چاہتا ہے ، نزدیک جانے کی اجازت (اذن دخول) طلب کرتا ہے ، اس اذن دخول میں اس حقیقی رابطے کا ان منقول الفاظ وکلمات میں اظہار کرتا ہے : 
’’اشھد انک تسمع کلامی وتریٰ مقامی ۔ ۔ ۔‘‘


سوال: اہل سنت کی کتابوں میں امام رضا (علیہ السلام) کی زیارت کی فضیلت میں کتنی روایات اور واقعات نقل ہویے ہیں ؟اجمالی جواب:تفصیلی جواب: اہل سنت کی کتابوں میں قبر امام رضا (علیہ السلام) کی زیارت کی فضیلت میں روایتیں وارد ہویی ہیں جن میں سے بعض کو ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں :
١۔ سید علی بن شہاب الدین ہمدانی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :  ستدفن بضعه منّى بخراسان، ما زار مکروب الاّ نفّس الله کربته، و لامذنب الاّ غفر الله له  (١) ۔ بہت جلد میرے جسم کا ایک حصہ خراسان میں دفن ہوگا ، جس کو بھی زیادہ غصہ آتا ہوگا اور وہ آپ کی زیارت کرے گا تو خداوند عالم اس کے غصہ کو دور کردے گا اور جو گنہگار بھی ان کی زیارت کرے گا خداوندعالم اس کے گناہوں کو بخش دے گا ۔
٢۔ حموینی نے اپنی سند کے ساتھ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :  ستدفن بضعه منّى بخراسان، لایزورها مومن الاّ اوجب الله له الجنّه، و حرّم جسده على النار (٢) ۔
بہت جلد میرے جسم کے ایک حصہ کو خراسان میں دفن کیا جایے گا ۔ جو مومن بھی ان کی زیارت کرے گا اس پر خداوند عالم بہشت کو واجب کردے گا اور اس کے جسم پر جہنم کی آگ کو حرام کردے گا ۔
٣۔ ابوبکر محمد بن مومل کہتے ہیں : میں نے اہل حدیث کے امام ،ابوبکر بن خزیمہ ، ابن علی ثقفی اور اساتید کی ایک جماعت کے ساتھ علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کی زیارت کے قصد سے طوس کی طرف روانہ ہوا ۔ میں نے ابن خزیمہ کو دیکھا کہ وہ اس ضریح کی اس قدر تعظیم کررہے تھے اور اس کے سامنے اس قدر تواضع اور تضرع و زاری کررہے تھے کہ ہم حیران رہ گیے (٣) ۔
٤۔ ابن حبان 
ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات میں لکھا ہے : علی بن موسی الرضا کو طوس میں مامون نے ایک شربت دیا جس کو پیتے ہی آپ کی شہادت واقع ہوگیی . آپ کی قبر سناباد میں نوقان کے باہر مشہور ہے ، لوگ ان کی زیارت کے لیے آتے ہیں ۔ میں نے بہت زیادہ ان کی زیارت کی ہے ، جب تک میں طوس میں رہا مجھ پر کویی مصیبت نہیں پڑی اور اگر کویی مصیبت پڑتی تھی تو میں علی بن موسی الرضا (صلوات اللہ علی جدہ و علیہ) کی قبر کی زیارت کے لیے جاتا تھا اور خداوند متعال سے دعا کرتا تھا کہ میری مصیبت کو دور کرے ، خداوند عالم بھی میری دعا کو مستجاب کرتا تھا اور وہ مصیبت مجھ سے دور ہوجاتی تھی اور یہ بات ایسی ہے جس کا میں نے بارہا تجربہ کیا ہے اور ہر مرتبہ میری مصیبت دور ہویی ہے ۔ خداوند عالم ہمیں مصطفی اور ان کے اہل بیت (صلی اللہ علیہ و علیہم اجمعین) کی محبت پر موت دے (٤) (٥) ۔

حوالہ جات:
١۔ مودة القربى، ص 140; ینابیع المودة، ص 265.
٢۔ فرائد السمطین، ج 2، ص 8، رقم 465.
٣۔ تهذیب التهذیب، ج 7، ص 339.
٤۔ الثقات، ج 8، ص 456 و 457.
٥۔ اهل بیت از دیدگاه اهل سنت، على اصغر رضوانى، ص 137.
منبع: http://makarem.ir

لوقت - ایران کے اسلامی انقلاب نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں پوری دنیا پر تقریبا سو سالوں سے چھائی خاموشی کو توڑا اوراسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک حقیقی نظریہ اختیار کیا اور اس طریقہ سے فلسطینیوں کے غصب شدہ حقوق میں ایک جان ڈال کر صیہونیوں کی سو سال سے تیار کئے جارہے منصوبے پر پانی پھیر دیا ۔امام خمینی ؒ نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس منانے کا اعلان کرکے  صیہونیوں کی فلسطینیوں کے خلاف سازشوں کو تہس نہس کردیا ۔اس طرح شہر اللہ کہے جانے والے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو ظلم اور بربریت کے خلاف آواز بلند کرنے کی مثال قائم کردی جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں مل سکتی۔


تبلیغات

محل تبلیغات شما

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها

دانلود اهنگ جدید + پخش انلاین دامپزشكي در خدمت بهداشت و سلامت جامعه